اچانک گاڑی میں آگ لگی اور پھر– جلتی گاڑی سے والد کی زندگی بچانے والا شخص کون تھا؟

                            

ایک ٹیکسی ڈرائیور کی بیٹی نے اپنے والد کی زندگی بچانے والے اجنبی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے خدا کی طرف سے بھیجا گیا فرشتہ قرار دیا ہے۔لندن میں بدھ کو پیش آنے والے اس واقعے میں اس ٹیکسی ڈرائیور کی گاڑی جل کر راکھ ہوگئی ہے۔عفت نورین کے والد 58 سالہ عبدالاول جنوب مشرقی لندن میں گاڑی چلا رہے تھے جب ایک شخص نے اس میں سے آگ

بھڑکتی دیکھی اور فائر بریگیڈ کو کال کر دی۔عبدالاول کی قوت سماعت کمزور ہے اس لیے جب اس شخص نے انھیں آگ کے بارے میں خبردار کرنے اور گاڑی سے نکل جانے کو کہا تو وہ سمجھے کہ وہ شخص ان سے کسی بات پر لڑائی کر رہا ہے۔ان کی بیٹی عفت نورین نے مدد کرنے والے شخص کے بارے میں کہا ہے کہ ’انسانیت ایسی ہونی چاہیے۔ اگر زیادہ سے زیادہ لوگ ایسے ہوں تو دنیا ایک بہتر جگہ ہو سکتی ہے۔‘اس مسلمان خاندان کا کہنا ہے کہ شاید اس اجنبی کو خدا نے فرشتہ بنا کر بھیجا تھا۔واقعہ کیسے پیش آیا؟

عبدالاول بدھ کی سہ ہہر پیٹرول سٹیشن سے واپس آ رہے تھے جب ان کی گاڑی گرم ہونا شروع ہوگئی۔مدد کرنے والا شخص جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا، اس وقت قریب ہی شاپنگ کر رہا تھا جب اس نے گاڑی کے بونیٹ سے آگ کا شعلہ نکلتے دیکھا اور حکام کو آگاہ کر دیا۔وہ شخص اس موقع پر تیزی سے بھاگ کر ان کی گاڑی کی طرف بڑھا اور بار بار گاڑی کی کھڑکی پر دستک دینے لگا اور گاڑی کو کسی محفوظ مقام پر روکنے کے لیے کہا۔مدد کرنے والے اس شخص کی عمر 30 کے پیٹے میں ہے۔ اسے آخر کار عبدالاول کی بازو پکڑ کر انھیں گاڑی سے دور لے

جانا پڑا جس کے بعد فائر بریگیڈ نے آ کر آگ بجھائی۔ان کی بیٹی نورین کا کہنا ہے کہ آپ کو ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ان کو جسمانی طور پر چھونا پڑتا ہے۔ ’پوری دنیا آگ کی لپیٹ میں ہوگی لیکن وہ جو کر رہے ہیں کرتے رہیں گے۔‘لوگ مجھے کہہ رہے ہیں کہ ’تم خوش قسمت ہو کہ وہ اجنبی مدد کے لیے پہنچ گیا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’اگر میں آگ دیکھتی تو شاید پاس نہ جاتی۔


‘وہ مزید کہتی ہیں ’میری خواہش ہے کہ ان جیسے مزید لوگ ہوں، بہت سے دوسرے لوگ فون پر ویڈیو بنا رہے تھے لیکن صرف ایک شخص تھا جسے واقعی میرے والد کی فکر تھی۔ میں بہت شکر گزار ہوں کہ دنیا میں ایسے لوگ ہیں۔‘نورین کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک معجزہ ہے کہ انھیں خراش تک نہیں آئی۔ حدت اتنی زیادہ اور دھواں تھا، یہ ناقابل یقین ہے۔‘’لندن میں اکثر لوگ بس پاس سے گزر جاتے ہیں۔ اس شخص کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا لیکن وہ بالکل ہچکچایا نہیں‘۔

Leave a Comment